تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا[83] قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا[84]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں وہ منہ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو دور کر لیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت ناامید ہوجاتا ہے۔ [83] کہہ دے ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے، سو تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر ہے۔ [84]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وه مایوس ہوجاتا ہے [83] کہہ دیجئیے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے جو پوری ہدایت کے راستے پر ہیں انہیں تمہارا رب ہی بخوبی جاننے واﻻ ہے [84]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو ردگرداں ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے۔ اور جب اسے سختی پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے [83] کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے [84]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 83، 84،

انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے ٭٭

خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے۔ مال، عافیت، فتح، رزق، نصرت، تائید، کشادگی، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت، تکلیف، دکھ، درد، آفت، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی، عافیت، راحت، آرام ملنے ہی کا نہیں۔
4783

قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت «‏‏‏‏وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ * وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ * إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ» [11-هود:9-11] ‏‏‏‏ ” انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا، گھمنڈ میں آ گیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں۔“

فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر، اپنی طبیعت پر، اپنی نیت پر، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے، صرف اللہ ہی کو ہے۔

اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَقُل لِّلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ * وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ» [11-هود:121-122] ‏‏‏‏ ” بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہے اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ “ الخ،

بدلے کا وقت یہ نہیں، قیامت کا دن ہے، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی، سب کو بدلے ملیں گے، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں۔
4784



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.